حیران ہوں دو آنکھوں سے کیا دیکھ رہا ہوں
ٹوٹے ہوئے ہر دل میں خدا دیکھ رہا ہوں
نظروں میں تری رنگ نیا دیکھ رہا ہوں
ہاتھوں میں بھی کچھ رنگ حنا دیکھ رہا ہوں
رخ ان کا کہیں اور نظر اور طرف ہے
کس سمت سے آتی ہے قضا دیکھ رہا ہوں
پھر لائی ہے برسات تری یاد کا موسم
گلشن میں نیا پھول کھلا دیکھ رہا ہوں
تو آئے نہ آئے مگر آتی ہے تری یاد
یادوں میں تجھے آبلہ پا دیکھ رہا ہوں
یہ کیسی سیاست ہے مرے ملک پہ حاوی
انسان کو انساں سے جدا دیکھ رہا ہوں
کاغذ پہ ہوئے میرے وطن کے کئی ٹکڑے
پنجاب کی بانہوں کو کٹا دیکھ رہا ہوں
تخلیق نہ سنبھلی تو بنے لوگ محقق
غالب کا ہوا حال یہ کیا دیکھ رہا ہوں
کل تک جو دیئے محفل یاراں میں تھے روشن
آج ان کو ستاروں میں چھپا دیکھ رہا ہوں
غزل
حیران ہوں دو آنکھوں سے کیا دیکھ رہا ہوں
صابر دت