حیران بہت تابش حسن دیگراں تھی
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں میں کہاں تھی
پھیلا کیے دریائے محبت کے کنارے
ان جھیل سی آنکھوں میں کوئی چیز نہاں تھی
ہر جشن طرب ناک پہ مجلس کا اثر تھا
ہر اڑتے ہوئے بوسے میں گرد غم جاں تھی
یا ارض یقیں پر تھی بچھی برف کی چادر
یا گھیرے ہوئے پھر مجھے دنیائے گماں تھی
ہم بارگہہ وصل کے ٹھکرائے ہوئے لوگ
اک صحبت ایام تھی سو نذر فغاں تھی
ہم ضبط کے ماروں کا عجب حال تھا ثاقبؔ
جو بات چھپانی تھی وہ چہروں سے عیاں تھی
غزل
حیران بہت تابش حسن دیگراں تھی
امیر حمزہ ثاقب