EN हिंदी
حیران بہت تابش حسن دیگراں تھی | شیح شیری
hairan bahut tabish-e-husn-digaran thi

غزل

حیران بہت تابش حسن دیگراں تھی

امیر حمزہ ثاقب

;

حیران بہت تابش حسن دیگراں تھی
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں میں کہاں تھی

پھیلا کیے دریائے محبت کے کنارے
ان جھیل سی آنکھوں میں کوئی چیز نہاں تھی

ہر جشن طرب ناک پہ مجلس کا اثر تھا
ہر اڑتے ہوئے بوسے میں گرد غم جاں تھی

یا ارض یقیں پر تھی بچھی برف کی چادر
یا گھیرے ہوئے پھر مجھے دنیائے گماں تھی

ہم بارگہہ وصل کے ٹھکرائے ہوئے لوگ
اک صحبت ایام تھی سو نذر فغاں تھی

ہم ضبط کے ماروں کا عجب حال تھا ثاقبؔ
جو بات چھپانی تھی وہ چہروں سے عیاں تھی