EN हिंदी
ہیں شام ہی سے رنج و قلق جان پر اب تو | شیح شیری
hain sham hi se ranj-o-qalq jaan par ab to

غزل

ہیں شام ہی سے رنج و قلق جان پر اب تو

تنویر دہلوی

;

ہیں شام ہی سے رنج و قلق جان پر اب تو
ہم کو نہیں امید کہ پکڑیں سحر اب تو

دیوانہ کوئی ہوئے تو ہو اس کی بلا سے
اپنے ہی پری پن پہ پڑی ہے نظر اب تو

سائے سے چہک جاتے تھے یا پھرتے ہو شب بھر
واللہ کہ تم ہو گئے کتنے نڈر اب تو

جاں کو تو خبر بھی نہیں اوپر ہی سے اوپر
دل لے گئی اس شوخ کی نیچی نظر اب تو

مے خانہ و مے عشق بتاں اور یہ سن و سال
تنویرؔ خدا کا بھی ذرا خوف کر اب تو