ہیں شاخ شاخ پریشاں تمام گھر میرے
کٹے پڑے ہیں بڑی دور تک شجر میرے
چراغ ان پہ جلے تھے بہت ہوا کے خلاف
بجھے بجھے ہیں جبھی آج بام و در میرے
ہزاروں سال کی تاریخ لکھی جائے گی
زمیں کے بطن سے ابھریں گے جب کھنڈر میرے
یہ دیکھنا ہے کہ اب ہار مانتا ہے کون
ادھر ہے وسعت امکاں ادھر ہیں پر میرے
میں اپنی ذات کی تعبیر کی تلاش میں تھا
تو میرے خواب چلے بن کے ہم سفر میرے
سراغ موسم گل کے امین کی صورت
کھلے ہوئے ہیں خزاں میں بھی زخم سر میرے
غزل
ہیں شاخ شاخ پریشاں تمام گھر میرے
احمد صغیر صدیقی