ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں
بے آس کو کب چین ملا ہے کسی گھر میں
چپ میں نے لگائی تو ہوا اس کا بھی چرچا
جو بھید نہ کھلتا ہو وہ کھل جاتا ہے ڈر میں
سورج کا گھمنڈ اور نہیں تارے کے برابر
ایسی ہی تو باتیں ہیں اس اندھیر نگر میں
وہ ٹل نہیں سکتی جو پہنچنے کی گھڑی ہے
چلتا رہے گلیوں میں کہ بیٹھا رہے گھر میں
ہوک اٹھی ادھر جی میں ادھر کوک اٹھی کوئل
پوچھے کوئی تو کون ادھر میں نہ ادھر میں
اے آرزوؔ آنکھوں ہی میں کٹ جاتے ہیں دن رات
کوئی بھی گھڑی چین کی ہے آٹھ پہر میں
غزل
ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں
آرزو لکھنوی