ہیں بے نیاز خلق ترا در ہے اور ہم
تیری گلی ہے خاک کا بستر ہے اور ہم
سجدوں سے رات دن کے ہے توہین بندگی
سر توڑنے کے واسطے پتھر ہے اور ہم
اس خوف سے کہ پاؤں نہ کھل جائے غیر کا
دن رات کوئے یار کا چکر ہے اور ہم
کیسا خلوص کس کی محبت کہاں کا عشق
محشر میں دامن بت خودسر ہے اور ہم
گو حرف حرف ڈال دیا ان کے کان میں
آگے رشیدؔ اپنا مقدر ہے اور ہم
غزل
ہیں بے نیاز خلق ترا در ہے اور ہم
رشید رامپوری