ہیں بزم گل میں بپا نوحہ خوانیاں کیا کیا
بہار چھوڑ گئی ہے نشانیاں کیا کیا
تمام عمر گل و مل کے درمیاں گزری
تمام عمر رہیں سر گرانیاں کیا کیا
وہ شخص عطر بدن جب بھی سامنے آیا
دل و نظر پہ ہوئیں گل و فشانیاں کیا کیا
خبر نہ تھی یہی وجہ سکون جاں ہوگی
نگاہ یار سے تھیں بدگمانیاں کیا کیا
ٹپک کے آنکھ سے طوفاں اٹھا دیئے جس نے
اس ایک اشک میں تھیں بے کرانیاں کیا کیا
حضور یار سے جب اذن گفتگو نہ ملا
سخن طراز ہوئیں بے زبانیاں کیا کیا
ہر ایک درد کو درماں بنا دیا اس نے
جفا کے بھیس میں تھیں مہربانیاں کیا کیا
وہ حسن آج بھی حیلہ گری میں یکتا ہے
دل غریب سنے گا کہانیاں کیا کیا
اس اک جمال گریزاں کی جستجو میں ظہیرؔ
خراب و خوار ہوئی ہیں جوانیاں کیا کیا
غزل
ہیں بزم گل میں بپا نوحہ خوانیاں کیا کیا
ظہیر کاشمیری