ہیں اور کئی ریت کے طوفاں مرے آگے
پھیلے گا ابھی اور بیاباں مرے آگے
باہر نہیں کوئی بھی مری حد نظر سے
مخفی ہے کوئی کوئی نمایاں مرے آگے
ہستی مری صحرا ہے سراب اس کا مقدر
آخر اسے ہونا ہے پشیماں مرے آگے
ہوں میل کے پتھر کی طرح راہ گزر میں
منزل پہ نظر رکھتے ہیں انساں مرے آگے
طے ہو نہ سکی دورئ منزل یہ الگ ہے
ہر موڑ پہ روشن رہا امکاں مرے آگے
کاندھے پہ مرے بوجھ رہا رخت سفر کا
یوں نکلا کیے بے سر و ساماں مرے آگے
جو صلح و صفائی میں ہیں پیچھے ابھی راہیؔ
رہتے ہیں بہم دست و گریباں مرے آگے
غزل
ہیں اور کئی ریت کے طوفاں مرے آگے
غلام مرتضی راہی