ہیں ایسے بد حواس ہجوم بلا سے ہم
اپنا سمجھ کے ملتے ہیں ہر آشنا سے ہم
طوفان سے الجھ گئے لے کر خدا کا نام
آخر نجات پا ہی گئے ناخدا سے ہم
پہلا سا وہ جنون محبت نہیں رہا
کچھ کچھ سنبھل گئے ہیں تمہاری دعا سے ہم
یوں مطمئن سے آئے ہیں کھا کر جگر پہ چوٹ
جیسے وہاں گئے تھے اسی مدعا سے ہم
آنے دو التفات میں کچھ اور بھی کمی
مانوس ہو رہے ہیں تمہاری جفا سے ہم
خوئے وفا ملی دل درد آشنا ملا
کیا رہ گیا ہے اور جو نا مانگیں خدا سے ہم
عادت سی ہو گئی ہے شکایات کی ہمیں
بیزار تو نہیں ہیں تمہاری جفا سے ہم
پائے طلب بھی تیز تھا منزل بھی تھی قریب
لیکن نجات پا نہ سکے رہنما سے ہم
دنیا سے کچھ لگاؤ نہ عقبیٰ کی آرزو
تنگ آ گئے ہیں اس دل بے مدعا سے ہم
ہوتے نشاط عشق سے بھی فیضیاب عرشؔ
مجبور ہیں مگر دل غم آشنا سے ہم
غزل
ہیں ایسے بد حواس ہجوم بلا سے ہم
عرش ملسیانی