EN हिंदी
ہے زیر زمیں سایہ تو بالائے زمیں دھوپ | شیح شیری
hai zer-e-zamin saya to baala-e-zamin dhup

غزل

ہے زیر زمیں سایہ تو بالائے زمیں دھوپ

رونق ٹونکوی

;

ہے زیر زمیں سایہ تو بالائے زمیں دھوپ
دنیا بھی دو رنگی ہے کہیں چھاؤں کہیں دھوپ

ہے نور رخ یار زمانہ میں فروزاں
کہتے ہیں غلط سب یہ نہیں دھوپ نہیں دھوپ

اس طرح کی ضد ہے اسے ہر بات میں مجھ سے
کہتا ہوں میں سایہ تو وہ کہتا ہے نہیں دھوپ

اللہ رے ترے گرمئ عارض کی شرارت
خورشید چھپا شرم سے نکلی نہ کہیں دھوپ

ہم پلہ ہوئے یار کی افشاں سے نہ رونقؔ
چمکی تو بہت کچھ صفت مہر مبیں دھوپ