ہے وجہ تماشائے جہاں دل شکنی بھی
منظور ہے اے دوست! یہ نیزے کی انی بھی
شاداب درختوں کے بھی سائے ہیں گریزاں
اک جرم ہوئی میری غریب الوطنی بھی
پیتے ہی رہے گردش ایام کے ہاتھوں
صہبائے ملامت بھی غم طعنہ زنی بھی
سوچا تھا کہ اس بزم میں خاموش رہیں گے
موضوع سخن بن کے رہی کم سخنی بھی
اے سلسلۂ نکہت گیسو کے اسیرو!
ہے عشق میں اک مرحلۂ کوہ کنی بھی
ویران جزیروں کی طرح خشک ہیں آنکھیں
بے کار ہے اے درد تری نالہ زنی بھی
اے نازش صد رنگ نہ کر ان سے تغافل
ہے خاک نشینوں سے تری گل بدنی بھی

غزل
ہے وجہ تماشائے جہاں دل شکنی بھی
محسنؔ بھوپالی