ہے وہی معرکۂ نیکی و شر میرے بعد
تھم نہ جائیں کہیں یاران سفر میرے بعد
کم ہیں ایسے جو کریں عرض ہنر میرے بعد
آج غم ناک سے ہیں اہل نظر میرے بعد
چند ساعت کے لئے رک بھی گیا رو بھی لیا
کارواں پھر بھی ہے سرگرم سفر میرے بعد
جذب تھیں جس میں مرے خون وفا کی چھینٹیں
بن گیا سجدہ گہہ خلق وہ در میرے بعد
ہجر کی رات لرزتا ہی رہا پلکوں پر
قطرۂ اشک بنا نجم سحر میرے بعد
شاید اے دوست تماشاؤں کے ہنگاموں میں
یاد آئے مری محتاط نظر میرے بعد
آج انجان بنو بھول بھی جاؤ لیکن
کیا کرو گے مری یاد آئے اگر میرے بعد
کیوں بچھاتے ہو مری راہ میں کانٹے یارو
خیر جاری سے بدل جائے گا شر میرے بعد
اب بھی شور قدم راہرواں ہے تو وہی
پھر بھی سونی ہے تری راہ گزر میرے بعد
کیا کوئی اور بناتا تھا نشیمن اپنا
پھر اسی شاخ پہ ہے رقص شرر میرے بعد
اک مری یاد کی مشعل کے سوا کچھ بھی نہ ہو
رات اس طرح سے بھی ہوگی بسر میرے بعد
یہ تموج یہ تلاطم یہ شہادت یہ شہود
ختم ہے منزل اول کا سفر میرے بعد
اشک آنکھوں میں بھرے اس نے بھی دیکھا زیدیؔ
آج محفل کو بہ انداز دگر میرے بعد
غزل
ہے وہی معرکۂ نیکی و شر میرے بعد
علی جواد زیدی