ہے اس کی زلف سے نت پنجۂ عدو گستاخ
مرا غبار وہ دامن سے ہے کبھو گستاخ
دھواں نکالوں میں حقے کا خون جام پیوں
ترے ہیں لب سے دونوں میرے روبرو گستاخ
پلا ہے پانی سے پر سر چڑھا ہے پانی کے
ندی کے سات ہے کم ظرفی سے کدو گستاخ
ستاوے ہے دل خونیں کو حرف ناصح یوں
کہ جیسے زخم سے ہووے ہے گل کی بو گستاخ
ہنسی سے غنچہ کا دل صبح توڑے ہے عزلتؔ
تو ڈر جو تجھ سے کوئی ہووے خندہ رو گستاخ

غزل
ہے اس کی زلف سے نت پنجۂ عدو گستاخ
ولی عزلت