ہے تیری ہی کائنات جی میں
جی تجھ سے ہے تیری ذات جی میں
تو نے کیا قتل گو بہ ذلت
سمجھا میں اسے نجات جی میں
کیوں غم یہ مجھی پہ مہرباں ہے
سب شاد ہیں ذی حیات جی میں
اس تنگ دہان کے سخن پر
یاں گزرے ہیں سو نکات جی میں
ہر دم بہ ہزار جلوۂ نو
دیکھوں ہوں تری صفات جی میں
دم آنکھوں میں آ رہا ہے جرأتؔ
گزرے ہے یہ آج رات جی میں
آ جاوے تو حال دل سنا لیں
رہ جائے نہ جی کی بات جی میں
غزل
ہے تیری ہی کائنات جی میں
جرأت قلندر بخش