ہے تقاضائے جنوں سلسلہ وار ملے
غم کی زنجیر ملے درد کی جھنکار ملے
تیشۂ نور لیے صبح کا پیغام لیے
کوئی بیدار ملے کوئی تو ہشیار ملے
دشت وحشت کی قسم آبلہ پائی کی قسم
راہ میں جب نہ کوئی سایۂ دیوار ملے
ہم سفر ہم نے جہاں نقش تمنا پایا
ہم رہ زیست کے اس موڑ پہ بیکار ملے
ان کے چہروں پہ تھے اخلاص و محبت کے نقوش
دل میں جھانکا تو مرے یار ہی اغیار ملے
غزل
ہے تقاضائے جنوں سلسلہ وار ملے
مختار شمیم