ہے تلخ تر حیات اس شراب سے
تو عشق ہار دے گا اجتناب سے
کہانیاں دہک رہی ہیں رات کی
بدن الجھ رہے ہیں ماہتاب سے
خدائے خواب خیمہ زن تھا آنکھ میں
سو دل چٹخ رہا تھا اضطراب سے
میں روشنی کے بیج بو کے سو گیا
چراغ اگ رہے ہیں کشت خواب سے
رفو گرو ہم ایسے خستہ تن یہاں
ادھڑ ادھڑ کے آئیں گے سراب سے
رضاؔ یہ خوشبوؤں کا ذائقہ نہیں
جو رس رہا ہے جسم کے گلاب سے

غزل
ہے تلخ تر حیات اس شراب سے
نعیم رضا بھٹی