EN हिंदी
ہے شوق تو بے ساختہ آنکھوں میں سمو لو | شیح شیری
hai shauq to be-saKHta aankhon mein samo lo

غزل

ہے شوق تو بے ساختہ آنکھوں میں سمو لو

رشید قیصرانی

;

ہے شوق تو بے ساختہ آنکھوں میں سمو لو
یوں مجھ کو نگاہوں کے ترازو میں نہ تولو

میں بھی ہوں کسی آنکھ سے ٹپکا ہوا موتی
مجھ کو بھی کسی ریشمی ڈوری میں پرو لو

لایا ہوں میں خود دل کو ہتھیلی پہ سجا کر
اس جنس کے بازار میں کیا دام ہیں بولو

میں کانچ کے ٹکڑوں کی طرح بکھرا پڑا ہوں
بھولے سے کبھی مجھ کو بھی پاؤں میں چبھو لو

پھر جانئے کب وقت کی رفتار تھمے گی
ٹھہرے ہوئے لمحے کو نگاہوں میں پرو لو

اب کوئی بکھیرے گا کڑی دھوپ میں گیسو
خود اپنے ہی دل کے کسی تہہ خانے میں سو لو

دن بھر تو رشیدؔ آپ کو ہنسنا ہی پڑے گا
رونا ہے تو اب رات کی تنہائی میں رو لو