EN हिंदी
ہے شرط قیمت ہنر بھی اب تو ربط خاص پر | شیح شیری
hai shart qimat-e-hunar bhi ab to rabt-e-KHas par

غزل

ہے شرط قیمت ہنر بھی اب تو ربط خاص پر

شاہدہ تبسم

;

ہے شرط قیمت ہنر بھی اب تو ربط خاص پر
ملے گا سنگ داد بھی ہوا کے رخ کو دیکھ کر

کبھی ہوا کا اجر ہے کبھی رتوں کا ہے ہنر
کہاں ہوا ہے آج تک پرند کوئی معتبر

کنار آب خونچکاں جبیں تو خاک ہو چکی
یہ کس کا عکس پانیوں میں پھر اٹھا رہا ہے سر

ہزار میں اسیر ہوں ترے طلسم نطق کی
یہ قفل دل کہاں کھلا کلید حرف سے مگر

ہوا کا رزق ہو چکے اجالے میری راہ کے
کہ اب کے پھر سیاہیوں کی سمت اٹھ گئی نظر

وہ جائے گا تو اس کے بعد دکھ ہی گھر میں آئے گا
نہ جانے کس امید پر سجے ہوئے ہیں بام و در