EN हिंदी
ہے شیخ و برہمن پر غالب گماں ہمارا | شیح شیری
hai shaiKH o barhaman par ghaalib guman hamara

غزل

ہے شیخ و برہمن پر غالب گماں ہمارا

شوق بہرائچی

;

ہے شیخ و برہمن پر غالب گماں ہمارا
یہ جانور نہ چر لیں سب گلستاں ہمارا

تھی پہلے تو ہماری پہچان سعئ پیہم
اب سر برہنگی ہے قومی نشاں ہمارا

ہر ملک اس کے آگے جھکتا ہے احتراماً
ہر ملک کا ہے فادر ہندوستاں ہمارا

زاغ و زغن کی صورت منڈلایا آ کے پیہم
کسٹوڈین نے دیکھا جب آشیاں ہمارا

مکر و دغا ہے تم سے عجز و خلوص ہم سے
وہ خانداں تمہارا یہ خانداں ہمارا

فریاد میکشوں کی سنتا نہیں جو بالکل
بہرا ضرور ہے کچھ پیر مغاں ہمارا

در پر ہمارے گم ہو ہر اک حسیں تو کیسے
ہر آستاں سے اونچا ہے آستاں ہمارا

ہر تاجور کی اس پر للچا رہی ہیں نظریں
ہے جیسے حلوا سوہن ہندوستاں ہمارا

ہو گر تمہاری مرضی تو بحر رنج و غم سے
ہو جائے پار بیڑا اللہ میاں ہمارا

چاہ ذقن سے ان کے سیراب تو ہوئے ہم
میٹھے کنوؤں سے اچھا کھارا کنواں ہمارا

ہوں شیخ یا برہمن سب جانتے ہیں مجھ کو
ہے شوقؔ نام نامی اے مہرباں ہمارا