ہے سمندر سامنے پیاسے بھی ہیں پانی بھی ہے
تشنگی کیسے بجھائیں یہ پریشانی بھی ہے
ہم مسافر ہیں سلگتی دھوپ جلتی راہ کے
وہ تمہارا راستہ ہے جس میں آسانی بھی ہے
میں تو دل سے اس کی دانائی کا قائل ہو گیا
دوستوں کی صف میں ہے اور دشمن جانی بھی ہے
پڑھ نہ پاؤ تم تو یہ کس کی خطا ہے دوستو
ورنہ چہرہ مصحف اعمال انسانی بھی ہے
زندگی عنوان جس قصے کی ہے وہ آج بھی
مختصر سے مختصر ہے اور طولانی بھی ہے
رت جگے جو بانٹتا پھرتا ہے سارے شہر میں
وہ فصیل خواب میں برسوں سے زندانی بھی ہے
بے تحاشہ وہ تو ملتا ہے محبت سے مگر
کچھ پریشانی بھی ہے اور خندہ پیشانی بھی ہے
اپنا ہمسایہ ہے لیکن فاصلہ برسوں کا ہے
ایسی قربت اتنی دوری جس میں حیرانی بھی ہے
زندگی بھر ہم سرابوں کی طرف چلتے رہے
اب جہاں تھک کر گرے ہیں اس جگہ پانی بھی ہے
رمزؔ تیری تیرہ بختی کی یہ شب کٹ جائے گی
رات کے دامن میں کوئی چیز نورانی بھی ہے

غزل
ہے سمندر سامنے پیاسے بھی ہیں پانی بھی ہے
رمز عظیم آبادی