EN हिंदी
ہے سماں ہر طرف بدلنے کو | شیح شیری
hai saman har taraf badalne ko

غزل

ہے سماں ہر طرف بدلنے کو

سید صغیر صفی

;

ہے سماں ہر طرف بدلنے کو
دل میں خواہش ہے اک مچلنے کو

میں نے سوچا پسند کا اس کی
پیرہن تھے کئی بدلنے کو

کتنے ارمان مار ڈالے ہیں
کوئی باقی نہیں کچلنے کو

کتنا مشکل عمل ہوا اس پر
فیصلہ کر لیا سنبھلنے کو

چھوڑ دوں گا میں ساتھ اوروں کا
وہ کہے گا جو ساتھ چلنے کو

اس کی چاہت کھلی ہے اب مجھ پر
اک کھلونا تھا میں بہلنے کو