ہے رشک وصل سے غم دل دار ہی بھلا
راحت سے ایسی ہم کو وو دل آزار ہی بھلا
دنیا میں یارو یار وفادار ہی نہیں
اور جو نہ ہو تو رہنا ہے بے یار ہی بھلا
معشوق کا نظارہ میسر ہو یا نہ ہو
عاشق ہمیشہ طالب دیدار ہی بھلا
زاری پہ میری رحم بھی کر آ خدا کو مان
کافر رہے گا ہم سے تو بیزار ہی بھلا
اطوار بد ہے غیر سے خلطہ مرے حضور
اس کے عوض نہ کر تو ہمیں پیار ہی بھلا
زخموں سے غم کے تیرا کلیجہ تو چھل گیا
بلبل ہے ایسے گل سے تجھے خار ہی بھلا
اک جرعہ درد مے پہ ہو اتنا نہ تلخ و تند
ساقی میں ایسے مست سے ہشیار ہی بھلا
حسرتؔ برا کیا میں اٹھایا دل اس سے کیوں
دل دار گر نہ تھا تو دل آزار ہی بھلا
غزل
ہے رشک وصل سے غم دل دار ہی بھلا
حسرتؔ عظیم آبادی