ہے قانون فطرت کوئی کیا کرے گا
جو ہوتا ہے دنیا میں ہو کر رہے گا
نہ نیزے پہ جب تک ترا سر چڑھے گا
ترے سر کو سر کوئی کیسے کہے گا
میں انجام حق گوئی سے با خبر ہوں
پتہ ہے کہ اک دن مرا سر کٹے گا
وہی روٹیاں جن سے چھینی گئی ہیں
اگر اٹھ کھڑے ہوں تو کیسا رہے گا
ترا حسن ہے شعلۂ آسمانی
کوئی اس سے آخر کہاں تک بچے گا
یقیناً کہیں آج بجلی گرے گی
یقیناً کوئی آشیانہ جلے گا
یہ درد محبت ہے میرے مسیحا
دوا سے نہ کوئی دعا سے گھٹے گا
محبت کی قسمت میں آوارگی ہے
کہاں تک کوئی اس کے پیچھے پڑے گا
ولیؔ جو ہے نا آشنائے محبت
مرے دل کی دھڑکن وہ کیوں کر سنے گا
غزل
ہے قانون فطرت کوئی کیا کرے گا
ولی اللہ ولی