ہے نیند ابھی آنکھ میں پل بھر میں نہیں ہے
کروٹ کوئی آرام کی بستر میں نہیں ہے
ساحل پہ جلا دے جو پلٹنے کا وسیلہ
اب ایسا جیالا مرے لشکر میں نہیں ہے
پھیلاؤ ہوا ہے مرے ادراک سے پیدا
وسعت مرے اندر ہے سمندر میں نہیں ہے
سیکھا نہ دعاؤں میں قناعت کا سلیقہ
وہ مانگ رہا ہوں جو مقدر میں نہیں ہے
رکھ اس پہ نظر جو کہیں ظاہر میں ہے پنہاں
وہ بھی تو کبھی دیکھ جو منظر میں نہیں ہے
یوں دھوپ نے اب زاویہ بدلا ہے کہ عاصمؔ
سایہ بھی مرا میرے برابر میں نہیں ہے
غزل
ہے نیند ابھی آنکھ میں پل بھر میں نہیں ہے
عاصمؔ واسطی