ہے نہایت سخت شان امتحان کوئے دوست
زندگی سے ہاتھ دھو لیں ساکنان کوئے دوست
جب نہیں پاتے پتہ ناواقفان کوئے دوست
درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے نشان کوئے دوست
تنگ کرتے ہیں ہمیں کیوں پاسبان کوئے دوست
اور ہیں دو چار دن ہم میہمان کوئے دوست
ناتواں یہ اور منزل عشق کی دشوار تر
چلتے چلتے تھک نہ جائیں راہروان کوئے دوست
آرزوئے وصل ہے اب اور نہ فرقت کا الم
شکر ہے آرام سے ہیں خفتگان کوئے دوست
کون سی جا ہے اسیران محبت کے لیے
کس لیے جائیں کہیں وابستگان کوئے دوست
اے رشیدؔ الفت میں جذب دل سلامت چاہئے
ڈھونڈ ہی لیں گے کسی صورت نشان کوئے دوست
غزل
ہے نہایت سخت شان امتحان کوئے دوست
رشید رامپوری