EN हिंदी
ہے نہیں کوئی ناخدا دل کا | شیح شیری
hai nahin koi naKHuda dil ka

غزل

ہے نہیں کوئی ناخدا دل کا

ایلزبتھ کورین مونا

;

ہے نہیں کوئی ناخدا دل کا
دل ہی ہے ایک آسرا دل کا

چار سو بے خودی میں پھرتا ہے
کچھ ٹھکانا نہیں رہا دل کا

رسم دنیا کو کیوں یہ مانے گا
ہے الگ جگ سے قاعدہ دل کا

شیخ و پنڈت کو کوئی سمجھائے
رب سے رہتا ہے رابطہ دل کا

راہ انسانیت ہی اول ہے
ہے یقیناً یہ فلسفہ دل کا

دو جہاں بھی یہاں سما جائیں
کتنا پھیلا ہے دائرہ دل کا

لب تلک آ کے بات ہی بدلی
کیا کرے لفظ ترجمہ دل کا

عقل کب آئے گی تمہیں موناؔ
مانتے کیوں ہو تم کہا دل کا