ہے مول بھاؤ میں بازار میں ہے ساتھ مرے
وہ ایک کار فنا زار میں ہے ساتھ مرے
صلیب جاں سے وصال آسماں کے ساحل تک
ہر ایک لذت آزار میں ہے ساتھ مرے
کبھی تو ہیرو بناتا ہے اور کبھی جوکر
ہر ایک رنگ کے کردار میں ہے ساتھ مرے
یہی بہت ہے مرے جسم و جاں کا حصہ ہے
کہیں تو موجۂ خوں بار میں ہے ساتھ مرے
عجب گمان ہے جیسے کہ سرفراز ہوں میں
عجیب فتنۂ دستار میں ہے ساتھ مرے
کبھی مجھے بھی ذرا معجزہ نما کرتا
جو اپنی ذات کے اسرار میں ہے ساتھ مرے
وہ دسترس میں ہے لیکن نظر سے غائب ہے
حریف جاں کوئی پیکار میں ہے ساتھ مرے
میں اک نگاہ کو محسوس کر رہا ہوں مدام
کوئی تو ریگ فنا زار میں ہے ساتھ مرے
وہ سارے خیمے لگاتا ہے پھر اکھاڑتا ہے
سراب منزل و آثار میں ہے ساتھ مرے
جو چھوڑ دیتا ہے دشت زوال میں تنہا
وہ ریل پیل میں بازار میں ہے ساتھ مرے
غزل
ہے مول بھاؤ میں بازار میں ہے ساتھ مرے
خالد کرار