ہے محبت سب کو اس کے ابروئے خم دار کی
ہند میں کیا آبرو باقی رہی تلوار کی
وصل کی شب چاندنی دیوار سے جانے نہ پائے
منتیں کرتا ہوں ہر خار سر دیوار کی
استرا پھرنے سے روئے یار پر ہے دور خط
چال اس کم بخت نے سیکھی ہے کیا پرکار کی
نشۂ مے کا گماں کرنے لگا وہ بدگماں
دیکھ کر سرخی ہمارے دیدۂ خوں بار کی
گھر بھی میرا منتظر ہے یار کا میری طرح
روزن در میں ہے صورت دیدۂ بیدار کی
کہتے ہو ہم خواب میں آتے جو تو سوتا کبھی
خوب کی برباد محنت دیدۂ بیدار کی
باغ عالم میں کہاں ہے کوئی مجھ سا رحم دل
روز کرتا ہوں عیادت نرگس بیمار کی
داغ سر ہیں جوش سودا میں برنگ گل مجھے
مثل گلبن پاؤں میں کب ہے شکایت خار کی
وہ خدا کا دوست ہے اور دوست ہے اس کا خدا
کیوں نہ ہو ناسخؔ محبت حیدر کرار کی
غزل
ہے محبت سب کو اس کے ابروئے خم دار کی
امام بخش ناسخ