ہے مرے پہلو میں اور مجھ کو نظر آتا نہیں
اس پری کا سحر یارو کچھ کہا جاتا نہیں
اشک کی بارش میں دل سے غم نکل آتا نہیں
گھر سے باہر مینہ برسنے میں کوئی جاتا نہیں
چاک جیب اپنے کو میں بھی جوں گریبان سحر
ناصحا تا دامن محشر تو سلواتا نہیں
شمع ساں رشتے پر الفت کے لگا دیتے ہیں سر
عاشق اور معشوق سا بھی دوسرا ناتا نہیں
بسکہ تیرے ہجر میں ہے نا گوارا اکل و شرب
دل بجز خون جگر اے جان کچھ کھاتا نہیں
میں ہی تم سب کا بنا تیر ملامت کا نشاں
اس بت سرکش کو یارو کوئی سمجھاتا نہیں
وائے یہ غفلت کہ دریا بیچ قطرے کی طرح
آپ ہی میں آپ کو ڈھونڈوں ہوں اور پاتا نہیں
ترک عشق اس سرو بالا کا کیا ہے جب سے دل
عالم بالا سے بالائی خبر لاتا نہیں
بسکہ ہے ہم رنگ واشد سے محبؔ اس باغ میں
دل کو غیر از غنچۂ تصویر کچھ بھاتا نہیں
غزل
ہے مرے پہلو میں اور مجھ کو نظر آتا نہیں
ولی اللہ محب