ہے مرا رنگ سخن رنگ بیاں کچھ مختلف
یہ نشاط دلبری طرز فغاں کچھ مختلف
دیکھیے کس راہ پر چلتا رہا ہے کارواں
ہیں ہمارے راستوں پر یہ نشاں کچھ مختلف
جو ہمارے ذکر کو ہم سے بھی پوشیدہ رکھے
اب ہمیں بھی چاہئے اک راز داں کچھ مختلف
ایک انجانی سی چپ ہے چار سو پھیلی ہوئی
چاہئے اے مہرباں! اک ہم زباں کچھ مختلف
ہے نشاط وصل سے سرشار عالم ہی سبھی
ہم مگر اس ہجر میں ہیں شادماں کچھ مختلف
ہم سنائیں شاہدہؔ کس طرز سے کس رنگ سے
ہے کہانی مختلف یہ داستاں کچھ مختلف
غزل
ہے مرا رنگ سخن رنگ بیاں کچھ مختلف
شاہدہ لطیف