ہے مشقت مری انعام کسی اور کا ہے
کام میرا ہے مگر نام کسی اور کا ہے
دھوپ تھی ساتھ جو دن بھر وہ کسی اور کی تھی
کیا دھندلکا بھی سر شام کسی اور کا ہے
سر پہ رہتا ہے ہمیشہ ہی کسی کا سایا
میری دیوار پہ یہ بام کسی اور کا ہے
میں تو خود اپنے ہی نشے میں ہوں سرشار بہت
ہاتھ میں ہے جو مرے جام کسی اور کا ہے
جانے یہ کون دھڑکتا ہے مرے سینے میں
میرے ہونٹوں پہ رواں نام کسی اور کا ہے
حیف اپنے لیے کچھ کر نہ سکا مر کر بھی
لاش میری ہے تو کہرام کسی اور کا ہے
میرا ہر سانس بھی خود میرا نہیں ہے ہمدمؔ
یہ بدن اور یہ احرام کسی اور کا ہے

غزل
ہے مشقت مری انعام کسی اور کا ہے
ہمدم کاشمیری