ہے کیا خزاں میں ممکن صحرا میں باغ نکلے
ظلمت کو جو مٹائے ایسا چراغ نکلے
شور سفیر بلبل سے گونجتا تھا کل تک
کیوں آج میرے گھر میں رونے کو زاغ نکلے
داغ قمر سے آخر جب آشنا ہوا میں
جتنے رقیب پائے ان میں نہ داغ نکلے
ڈرتا تھا میں نہ آئے وقت فراق مجھ پر
کچھ وصل سے ترے اب حول دماغ نکلے
ہو جستجو میں جس کی ہے وہ مزار کیسا
کیا اپنی قبر کا تم لینے سراغ نکلے
میں تھک چکا ہوں ناقدؔ ترغیب زندگی سے
چاہوں افق سے آخر روز فراغ نکلے
غزل
ہے کیا خزاں میں ممکن صحرا میں باغ نکلے
ؔآدتیہ پنت ناقد