EN हिंदी
ہے کوئی اختیار دنیا پر | شیح شیری
hai koi iKHtiyar duniya par

غزل

ہے کوئی اختیار دنیا پر

ظفر اقبال

;

ہے کوئی اختیار دنیا پر
نہ ہمیں اعتبار دنیا پر

اپنا دار و مدار دل پر ہے
آپ کا انحصار دنیا پر

جب جھڑا میرا آخری پتا
آ چکی تھی بہار دنیا پر

حملہ آور ہوا خدا خود بھی
اس نحیف و نزار دنیا پر

جب کوئی ابر جھوم کر برسا
چھا رہا تھا غبار دنیا پر

ڈال رکھی تھی کوئی خود اس نے
چادر انتظار دنیا پر

سارا الزام دھر دیا کیسا
ہم نے پایان کار دنیا پر

یوں توقع ہی باندھنا تھی غلط
ایسی ناپائیدار دنیا پر

ہم پہ دنیا ہوئی سوار ظفرؔ
اور ہم ہیں سوار دنیا پر