ہے کوئی بیر سا اس کو مری تدبیر کے ساتھ
اب کہاں تک کوئی جھگڑا کرے تقدیر کے ساتھ
مرے ہونے میں نہ ہونے کا تھا ساماں موجود
ٹوٹنا میرا لکھا تھا مری تعمیر کے ساتھ
چھوڑ جاتے ہیں حقیقت کے جہاں میں ہمیں پھر
خواب آتے ہی کہاں ہمیں کبھی تعبیر کے ساتھ
آدمی ہی کے بنائے ہوئے زنداں ہیں یہ سب
کوئی پیدا نہیں ہوتا کسی زنجیر کے ساتھ
جانتے سب ہیں کہ دو گز ہی زمیں اپنی ہے
کون خوش رہتا ہے لیکن کسی جاگیر کے ساتھ
ساتھ غالبؔ کے گئی فکر کی گہرائی بھی
اور لہجہ بھی گیا میرتقی میرؔ کے ساتھ
غزل
ہے کوئی بیر سا اس کو مری تدبیر کے ساتھ
راجیش ریڈی