ہے خاک بسر صبا مرے بعد
گلشن کی پھر ہوا مرے بعد
تھی جائے وصال منزل گور
حاصل ہوا مدعا مرے بعد
اے تپ نہ جلانا استخواں کو
مایوس نہ ہو ہما مرے بعد
قاتل نے بہائے لاش پر اشک
تھا بس یہی خوں بہا مرے بعد
یوں خاک میں میں ملا کہ اس نے
پایا نہ مرا پتا مرے بعد
کی داغ نے خاک سے تراوش
گل قبر سے یہ کھلا مرے بعد
اوروں پہ کرو گے جب جفائیں
یاد آئے گی یہ وفا مرے بعد
گو میں نہ رہا مگس کی صورت
شہرہ تو رہا مرا مرے بعد
اے غم مری جان کھا چکا تو
کیا ہوگی تیری غذا مرے بعد
بے جرم کیا جو قتل مجھ کو
جلاد خجل ہوا مرے بعد
روٹھا رہا یوں تو عمر بھر وہ
تربت سے گلے لگا مرے بعد
باقی نہ رہا جہاں میں عاجزؔ
کچھ لطف زبان کا مرے بعد
غزل
ہے خاک بسر صبا مرے بعد
پیر شیر محمد عاجز