ہے کون شے جس کی ضد نہیں ہے جہاں خوشی ہے ملال بھی ہے
غم جدائی نہ کھا تو اے دل فراق ہے تو وصال بھی ہے
جو ٹیکہ صندل کا ہے جبیں پر تو پاس ابرو کی خال بھی ہے
سپہر خوبی یہ ماہ بھی ہے سبیل بھی ہے ہلال بھی ہے
مثال در نجف سے کیا دوں عذار سادہ کو اس پری کے
نہیں ہے بال اس میں نام کو بھی یہ عیب ہے اس میں بال بھی ہے
خدا ہی جانے کہ کس روش سے کیا تھا مرغ چمن نے نالہ
پڑی ہے غنچے کی چیں جبیں پر تو رنگ چہرے کا لال بھی ہے
غزل
ہے کون شے جس کی ضد نہیں ہے جہاں خوشی ہے ملال بھی ہے
منور خان غافل