ہے جستجو اگر اس کو ادھر بھی آئے گا
نکل پڑا ہے تو پھر میرے گھر بھی آئے گا
تمام عمر کٹے گی یوں ہی سرابوں میں
وہ سامنے بھی نہ ہوگا نظر بھی آئے گا
جو غم ہوا ہے نئے شہر کے مکانوں میں
وہ دیکھنے کو کبھی یہ کھنڈر بھی آئے گا
رچی ہے میرے بدن میں تمام دن کی تھکن
ابھی تو رات کا لمبا سفر بھی آئے گا
ذرا سی دیر میں ہر شے چمک اٹھے گی نسیمؔ
سحر ہوئی ہے تو نور سحر بھی آئے گا
غزل
ہے جستجو اگر اس کو ادھر بھی آئے گا
افتخار نسیم