EN हिंदी
ہے جستجو اگر اس کو ادھر بھی آئے گا | شیح شیری
hai justuju agar isko idhar bhi aaega

غزل

ہے جستجو اگر اس کو ادھر بھی آئے گا

افتخار نسیم

;

ہے جستجو اگر اس کو ادھر بھی آئے گا
نکل پڑا ہے تو پھر میرے گھر بھی آئے گا

تمام عمر کٹے گی یوں ہی سرابوں میں
وہ سامنے بھی نہ ہوگا نظر بھی آئے گا

جو غم ہوا ہے نئے شہر کے مکانوں میں
وہ دیکھنے کو کبھی یہ کھنڈر بھی آئے گا

رچی ہے میرے بدن میں تمام دن کی تھکن
ابھی تو رات کا لمبا سفر بھی آئے گا

ذرا سی دیر میں ہر شے چمک اٹھے گی نسیمؔ
سحر ہوئی ہے تو نور سحر بھی آئے گا