ہے جتنا ظرف مرا اتنا ہی صلہ دینا
نہ اور کچھ تو امیدوں کا سلسلہ دینا
مری تو عرض تمنا ہے قدرے پیچیدہ
جواب دینا ہو مشکل تو مسکرا دینا
کسی غریب کی دل جوئی بھی عبادت ہے
ہے نیک کام کسی روتے کو ہنسا دینا
کچھ اس قدر ہوئی کمزور ڈور رشتوں کی
ہے ایک معجزہ ٹوٹے سرے ملا دینا
تمہارا فرض ہے حالات حاضرہ پہ اثرؔ
غزل کے شعروں میں اک تبصرہ سنا دینا

غزل
ہے جتنا ظرف مرا اتنا ہی صلہ دینا
مرغوب اثر فاطمی