ہے جس میں قفل خانۂ خمار توڑیئے
یعنی در بہشت کو یکبار توڑیئے
کیوں قید خم میں دختر رز ہی پڑی رہے
یہ مہر ریسمان سروکار توڑیئے
شاگرد امیر حمزۂ صاحب قراں کے ہیں
کیوں کر بھلا نہ قلعۂ اشرار توڑیئے
کیجے لقائے باختر بے بقا کو قید
نجتک کے سر پہ گرز گراں بار توڑیئے
چوٹی پکڑ کے نرگس جادو کی کھینچیے
کلے کو اس کے ماریے للکار توڑیئے
رستم سے چھین لیجئے دیو سفید کو
اور اس کی دہ مروڑ کے تلوار توڑیئے
سد سکندری بھی جو چڑھ جائے دھیان تو
ووہیں طفیل حیدر کرار توڑیئے
آ جاویں ہفت خوان طلسمات سامنے
تو خیر سے انہیں بھی بہ تکرار توڑیئے
حصن زمردین عدو کوہ قاف پر
ہووے تو اس کو بھیج کے عیار توڑیئے
زنبیل ہے عمرو کی دل فکر خیز یہ
اس کو کسی طرح سے نہ زنہار توڑیئے
ہے عزم جزم یہ کہ زبردستی آج تو
بند قبا ہے موسم گلزار توڑیئے
یا چھیڑنے کو ابر کے اک جھٹکا مار کر
شلوار بند برق شرربار توڑیئے
جی چاہتا ہے لے کے بلائیں تمہاری آج
پوریں ان انگلیوں کو سب اے یار توڑیئے
انشاؔ دکھا کے اور بھی اک جلوۂ غزل
بند نقاب شاہد اسرار توڑیئے
غزل
ہے جس میں قفل خانۂ خمار توڑیئے
انشاءؔ اللہ خاں