ہے ارتباط شکن دائروں میں بٹ جانا
چمن کا موجۂ باد صبا سے کٹ جانا
کرن کے حق میں یہ سورج کا فیصلہ کیوں ہے
جو فرش خاک پکارے تو دور ہٹ جانا
میں پر شکستہ نہ تھا بادلوں کے بیچ مگر
مری اڑان کا زنجیر سے لپٹ جانا
یہ ساز و رخت دل بہرہ مند کیا شے ہے
تمام بکھرے ہوئے درد کا سمٹ جانا
یہ کون جھانک رہا تھا دریچۂ شب سے
عجب سماں تھا گھنے بادلوں کا چھٹ جانا
کہیں پہ دست نگاریں کہیں لب لعلیں
وہ سوتے سوتے مری نیند کا اچٹ جانا
میان راہ عجب پر فضا تھی گہری جھیل
میں ڈوب جاتا کہ اچھا ہوا پلٹ جانا
غزل
ہے ارتباط شکن دائروں میں بٹ جانا
سید امین اشرف