ہے اختلاف ضروری تمہیں پتا نہیں ہے
چراغ کیسے جلے گا جہاں ہوا نہیں ہے
تمہارے ہاتھ چھڑانے سے رک گیا ہے سفر
یہ دھوپ چھاؤں مسافر کا مسئلہ نہیں ہے
تمہارے جانے سے بے لطف ہو گئی ہر شے
کہ زہر کھا کے بھی دیکھا ہے ذائقہ نہیں ہے
میں ڈھونڈ لایا ہوں جب اس کے جیسا دوجا شخص
سو اب وہ کہنے لگا مجھ سا تیسرا نہیں ہے
زماں مکاں میں کہیں ہوگا ڈھونڈ لوں گا اسے
مجھے بس اتنا بتا دو کہ وہ خدا نہیں ہے

غزل
ہے اختلاف ضروری تمہیں پتا نہیں ہے
وقاص عزیز