ہے اک غم جہاں تو غم یار کم نہیں
اس مختصر سی عمر میں آزار کم نہیں
پہلے کی طرح اب وہ کہاں نکہت چمن
گرچہ کہ رنگ غنچہ گلزار کم نہیں
عنقا ہے اب خلوص کہ ناپید ہے وفا
دنیا میں گو کہ حسن کے بازار کم نہیں
قیمت تو اپنی جنس وفا کی لگا کے دیکھ
ہم بھی دکھائیں ظرف خریدار کم نہیں
اک بار درد دل کا مسیحا تو بن کے دیکھ
ہم ابتلائے عشق کے بیمار کم نہیں
بہتر ہے بزم یار میں خاموش ہی رہیں
کہنے کو راز جاں در و دیوار کم نہیں
اب کیوں نہیں ہے تیرا وہ طرز بیاں حقیرؔ
حالانکہ تیری ثروت افکار کم نہیں

غزل
ہے اک غم جہاں تو غم یار کم نہیں
حقیر جہانی