ہے عبارت جو غم دل سے وہ وحشت بھی نہ تھی
سچ ہے شاید کہ ہمیں اس سے محبت بھی نہ تھی
زندگی اور پر اسرار ہوئی جاتی ہے
عشق کا ساتھ نہ ہوتا تو شکایت بھی نہ تھی
تجھ سے چھٹ کر نہ کبھی پیار کسی سے کرتے
دل کے بہلانے کی لیکن کوئی صورت بھی نہ تھی
گھور اندھیروں میں خود اپنے کو صدا دے لیتے
راہ چلتے ہوئے لوگوں میں یہ جرأت بھی نہ تھی
ضد میں دنیا کی بہرحال ملا کرتے تھے
ورنہ ہم دونوں میں ایسی کوئی الفت بھی نہ تھی
مر مٹے لوگ سر رہ گزر عشق فضیلؔ
اپنے حصے میں یہ چھوٹی سی سعادت بھی نہ تھی
غزل
ہے عبارت جو غم دل سے وہ وحشت بھی نہ تھی
فضیل جعفری