ہے گزر عرش بریں تک نالۂ شبگیر کا
دیکھیے تو سلسلہ ٹوٹی ہوئی زنجیر کا
بار سر سے مجھ کو اے قاتل سبک دوشی ہوئی
ہے مری گردن پہ یہ احساں تری شمشیر کا
دیکھ کر ان کو مجھے سکتہ ہے وہ خاموش ہیں
سامنا ہے آج اک تصویر سے تصویر کا
ساتھ میں اس کے نکل آیا ہے کیا میرا جگر
دیکھتے ہیں کس لئے پیکاں وہ اپنے تیر کا
کی بتوں کے در پہ میں نے جبہ سائی عمر بھر
پر مٹا اب تک نہ وہ لکھا ہوا تقدیر کا
نقش سے بہزاد بھی حیراں ہے مثل آئنہ
اے پری پیکر وہ عالم ہے تری تصویر کا
غیر کے پہلو میں اے شعلہؔ نہیں ان کو قرار
ہے اثر اتنا ہماری آہ پر تاثیر کا
غزل
ہے گزر عرش بریں تک نالۂ شبگیر کا
شعلہ کراروی