ہے غنیمت یہ فریب شب وعدہ اے دل
کیا کوئی دے گا تجھے اس سے زیادہ اے دل
مدتوں جان چھڑکتے رہے جس لمس پہ وہ
اوڑھ کر آ گیا خوشبو کا لبادہ اے دل
سوچ زنجیر بہ پا فکر ہے پابند رسن
کیا یہی صبح تمنا کا ہے جادہ اے دل
اب بھی روشن کئے بیٹھا ہے امیدوں کے چراغ
کتنا معصوم ہے تو کتنا ہے سادہ اے دل
خوں میں لتھڑے ہوئے لاشے ہیں نقوش کف پا
اور کر منزل جاناں کا ارادہ اے دل
خود فریبی کا فسوں تجھ پہ ہے کاری ورنہ
کم نہیں ہے شب غم سے شب وعدہ اے دل
غزل
ہے غنیمت یہ فریب شب وعدہ اے دل
رضا ہمدانی