ہے غلط گر ترے دانتوں کو کہوں تارے ہیں
کہ دہن مصحف ناطق ہے یہ سیپارے ہیں
اپنی ہستی میں تو آثار فنا سارے ہیں
شام کو ذرے ہیں اور صبح کو ہم تارے ہیں
کیا ہی ہرجائی حسینان جہاں سارے ہیں
یہ وہ اختر ہیں کہ ثابت نہیں سیارے ہیں
ذائقہ ہونٹوں کا بدلے گا نہ مسی ملیے
ہوں گی یہ قند سیہ اب تو شکر پارے ہیں
بادشاہوں کی طرح پھرتے ہیں ڈنکے دیتے
خار پا چوب ہیں اور آبلے نقارے ہیں
چھپ چلے ہیں خط شب رنگ سے رخسار صبیح
دن ہے کم شام کے آثار عیاں سارے ہیں
ساغر چشم کے سو دینے پڑیں گے بوسے
شیشۂ دل کبھی توڑا تو یہ کفارے ہیں
خط پہ خط روز بہا کر اسے پہنچاتے ہیں
اشک کاہے کو ہیں یہ ڈاک کے ہرکارے ہیں
آب جاری کیا اعجاز سے اے بہر کرم
انگلیاں کاہے کو ہیں نور کے فوارے ہیں
مصحف رخ کو وہ دکھلائیں اگر تیسوں دن
نئی پھبتی مجھے سوجھی کہوں سیپارے ہیں
ہاتھ اگر چھونے سے جل جائے ید بیضا ہو
لعل لب اس بت کافر کے وہ انگارے ہیں
رونگٹے کب ہیں ان آئینوں میں ہیں پڑ گئے بال
ہاتھ زانو پہ کبھی یار نے دے مارے ہیں
پشت پر ہے جو سپر خم ہوئے ہو تیغ کی طرح
چار پھول اس کے تمہیں پھولوں کے پشتارے ہیں
روبرو رہتی ہے تصویر تصور شب و روز
اب تو بے منت خلق آپ کے نظارے ہیں
دیکھ کر تجھ کو حسیں کٹتے ہیں بھولے ہیں بناؤ
کنگھیاں کرتے نہیں سر پہ رواں آرے ہیں
دل پہ جو گزری خبر اشکوں نے دی آ کے وزیرؔ
لائق خلعت رومال یہ ہرکارے ہیں
غزل
ہے غلط گر ترے دانتوں کو کہوں تارے ہیں
خواجہ محمد وزیر لکھنوی