EN हिंदी
ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں | شیح شیری
hai fasilen uTha raha mujh mein

غزل

ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں

جون ایلیا

;

ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں

جونؔ مجھ کو جلا وطن کر کے
وہ مرے بن بھلا رہا مجھ میں

مجھ سے اس کو رہی تلاش امید
سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں

تھا قیامت سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں

پس پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی
ایک پردہ کھنچا رہا مجھ میں

مجھ میں آ کے گرا تھا اک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں

اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں