ہے دکان شوق بھری ہوئی کوئی مہرباں ہو تو لے کے آ
زر داغ دل کا سوال ہے کوئی نقد جاں ہو تو لے کے آ
رہی یہ فضا تو جئیں گے کیا کوئی اب بنائے دگر اٹھا
کوئی ہو زمیں تو نکال اسے کوئی آسماں ہو تو لے کے آ
جو ہو ذوق درد کا یہ سماں تو اچھال دے کوئی آسماں
ترے داغ دل مہ و مہر میں کہیں کہکشاں ہو تو لے کے آ
یہ ہے شام موسم درد کی یہ ہے صبح چہرۂ زرد کی
ہے بہار پر غم زندگی کوئی دل خزاں ہو تو لے کے آ
یہ سفر ہے منزل شوق کا کوئی ہم سفر کوئی ہم رہی
کسی دل شکستہ کو ساتھ لے کوئی سرگراں ہو تو لے کے آ
یوں ہی اپنے آپ سے گفتگو جو رہی تو پھر نہ رہے گا تو
کوئی ہم خیال تلاش کر کوئی ہم زباں ہو تو لے کے آ
ذرا خود سے باقرؔ بے نوا تو نکل کہ طے ہو معاملہ
انہیں مل یہ لوگ ہیں اہل دل غم رائگاں ہو تو لے کے آ
غزل
ہے دکان شوق بھری ہوئی کوئی مہرباں ہو تو لے کے آ
سجاد باقر رضوی