ہے دعا ہونٹوں پہ اور ہیں خواہشیں ہاتھوں کے بیچ
کام دنیا کے نکلتے ہیں مناجاتوں کے بیچ
سرد نیندوں کی مسلسل گر رہی ہیں پتیاں
کچھ سفید اور کچھ سیہ سے خواب ہیں راتوں کے بیچ
لمحہ لمحہ پڑتی رہتی ہے دلوں میں اک گرہ
تیوری اک چل رہی ہے رات دن ماتھوں کے بیچ
دیکھتی ہے غور سے ہر شے کو وہ بیمار آنکھ
ایک گہرا زرد اشک ہے اس کی سب باتوں کے بیچ
جب سے نکلے ہیں دلوں کے کام میں گھاٹے بہت
ہم حساب دوستاں لکھتے ہیں اب کھاتوں کے بیچ
اب تو اٹھتا جا رہا ہے موسموں سے اعتبار
دل کسی صحرا میں ہے اور جسم برساتوں کے بیچ
مجھ کو شاہیںؔ دکھ بہت دیتی ہے اس کی یہ ادا
جیسے وہ ہوتا نہیں مل کر ملاقاتوں کے بیچ
غزل
ہے دعا ہونٹوں پہ اور ہیں خواہشیں ہاتھوں کے بیچ
جاوید شاہین