ہے دھوپ تیز کوئی سائبان کیسے ہو
یہ وقت ہم پہ بھلا مہربان کیسے ہو
نہ لفظ ہو تو کوئی داستان کیسے ہو
زبان کاٹ لی تم نے بیان کیسے ہو
ہمارے حصہ میں دو گز زمین بھی تو نہیں
ہمارے حق میں کوئی آسمان کیسے ہو
اڑے رہیں گے اگر اپنی ضد پہ دونوں فریق
تو کوئی فیصلہ بھی درمیان کیسے ہو
گنوا نہ بیٹھوں کہیں تجھ کو آزمانے میں
میں ڈر رہی ہوں ترا امتحان کیسے ہو
جو بات جھوٹ ہے سچ کیسے مان لوں اس کو
بتاؤ دور یہ وہم و گمان کیسے ہو
غزل
ہے دھوپ تیز کوئی سائبان کیسے ہو
سیا سچدیو